”مغرب میں نافذ زیادہ تر قوانین اسلامی ہیں اور یہ کہ اسلام بارے شکوک و شبہات پیدا کرنے میں نام نہاد مسلم مفکرین کا بڑا ہاتھ ہے۔“
اگر جان کی امان پاوں تو اس پر کچھ عرض کروں کہ مغرب میں نافذ زیادہ تر قوانین اسلامی ہی نہیں بلکہ ان تمام تر قوانین پر ”عملدرآمد“ کی رفتار اور انداز بھی عین اسلامی ہے کیونکہ ہمار ے پیارے اسلامی جمہوریہ کے برعکس ان غیراسلامی جمہوریاوں پر ”استنثنائ“ ، ”این آر او“ اور ”نظریہ ضرورت“ ٹائپ خباثتوں اور لعنتوں کا کوئی منحوس سایہ نہیں۔ منی لانڈرنگ اور منی میکنگ سے لے کر منی سمگلنگ تو کیا… قیادت کے کریکٹر میں بے ضرر سی مونیکا بھی مل جائے تو سپرپاور کا سربراہ اور دنیا کا طاقتور ترین آدمی ہانپتا کانپتا اور لرزتا دکھائی دیتا ہے اور کوئی فراڈ یا سزا سننے یا بچ نکلنے کے بعد ”وی فار وکٹری“ کا نشان بناتا دکھائی نہیں دیتا۔ ایک ایک پائی کاخرچ کرسٹل سے زیادہ ٹرانسپیرنٹ ہوتا ہے اور وہاں کا شیطان شہری بھی توقع رکھتا ہے کہ اس کی قیادت فرشتوں جیسی اور ہر اعتبار سے بے داغ ہو جبکہ یہاں اس مکروہ محاورے نے اب تک ہماری جان نہیں چھوڑی کہ ”چور اچکا چودھری اور غنڈی رَن پردھان“
مختصراً یہ کہ ان کے بیشتر قوانین بھی اسلامی، ان پر عملدرآمد بھی اسلامی کہ عدالتوں پر چڑھائی صرف ہمارے ہاں ہی ہوتی ہے اور بدقسمتی سے یہ محاورہ بھی ہماری ہی ایجاد ہے کہ ”وکیل کیاکرنا ہے جج ہی کرلو“ اور ان سب سے اہم بات یہ کہ وہاں کے عوام کے بیشتر رویئے بھی اسلامی ہیں مثلاً درج ہماری کتابوں میں ہے کہ… صفائی نصف ایمان ہوتی ہے لیکن عمل اس پر مغرب میں ہو رہا ہے کہ پورے یورپ کا گند ہماری ایک بستی کی گندگی کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ہم اپنے بچوں کو خالص دودھ تک نہیں دے سکتے، وہاں اشیائے خور و نوش میں ملاوٹ کا تصور تک موجود نہیں۔ ہماری زیریں عدالتوں میں پیشہ ور گواہ دندناتے پھرتے ہیں اور وہ اس ”پروفیشن“ کے خیال تک سے نا آشنا ہیں۔ وہاں کسی کو "Son of a Bitch" کہہ لیں تو شاید نظر انداز کردے، کسی کو ”جھوٹا“ کہہ کر دیکھیں وہ مرنے مارنے پر تل جائے گا۔ وہ ”سور“ کھاتے ہیں ”حرام“ نہیں کھاتے جبکہ ہم سورنہیں کھاتے لیکن اوپر ی سطح سے لے کر نیچلی سطح تک حرام ہمارا کلچر بن چکا ہے۔
آقا نے فرمایا ”سادگی ایمان کی علامت ہے“ ان کے کھرب پتی بھی قیمتی کاریں اورلباس ترک کرچکے، ہم نے اسراف اور نمود و نمائش کو زندگی کاحاصل سمجھ لیا۔ فرمایا… ”کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ کوئی ایسی چیز بیچے جس میں کسی نقص کے ہونے کا اس کو علم ہو“… اس حکم پر عمل کیا ہو رہاہے؟ مغرب میں یا ہماری منڈیوں میں جہا ں جعل سازی کو فنکاری سمجھا جاتا ہے۔
مغرب میں قبضہ گروپوں کا وجود نہیں او ر یہاں یہ ”معزز ترین“ لوگوں کا پیشہ ہے۔ حسد، کینہ، غیبت ہمارے معمولات میں شامل، انہیں ان کی فرصت نہیں۔ افراد سے لے کر اداروں تک تجاوزات ہمارا ”وے آف لائف‘ ‘اور اہل مغرب اس ”خوبصورتی“ سے بھی محروم… کس کس مسئلے اور مرض کا رونا روئیں، اپنی کس کس کجی کا ماتم کریں۔
وہاں بیشتر قوانین ہی اسلامی نہیں… ان کا نفاذ ہی اسلامی نہیں بلکہ اشرافیہ اور عوام کے بیشتر رویئے بھی اسلامی ہیں۔ اونچ نیچ اور ذات پات سے لے کر نظم و ضبط اور پابندی اوقات تک ہمیں ملنے والی ہر ہدایت پر عمل مغرب میں ہو رہاہے اور یہی موازنہ اورتقابلی جائز ہ میرا جرم بن چکا۔ پچھلے دنوں ایک بے حد محترم اور بھلے آدمی نے لکھا کہ مسلمانوں اور پاکستان کی تحقیر میرا پسندیدہ موضوع ہے حالانکہ میں صرف سفاکانہ سرجری کا مجرم ہوں۔ تحقیر نہیں بغیر کسی رو رعایت کے تنقید برائے تعمیر کو عبادت سمجھتا ہوں اسی لئے ڈاکٹر طاہر القادری کے اس تبصرے پر پھر سے میرے زخم ہرے ہوگئے کہ مغرب میں بیشتر قوانین اسلامی ہیں، ان کا نفاذ اسلامی ہے، ان کے بیشتررویئے اور اعمال اسلامی ہیں جبکہ ہم ہمیں ملنے والے احکامات کے برعکس زندگیاں بسر کر رہے ہیں اور یہی ہمارے زوال کا سبب ہے… کوئی سازش نہیں۔
مختصر یہ کہ خدا کے لئے اس ملک کا نام تبدیل کردیں کیونکہ پاک صرف اللہ کی ذات ہے اور یہ اس کے لئے صفت مخصوصہ ہے۔ ہم اپنے آپ کو پاکستانی کہہ کر سر تا پا مردار ہو گئے۔
No comments:
Post a Comment